فطرت سے ہم آہنگی میں زندگی آسان 10
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
اس بات سے قطعہ نظر کہ زمین کیسے وجود میں آئی ، ہماری معلومات اتنی ضرور ہے کہ ہماری زمین چار حصوں میں وجود میں آئی ۔ ایک سب سے بڑا حصہ پانی، دوسرا پہاڑ، تیسرا جنگلات اور چوتھا ریگستان۔پہاڑوں کو معدنیات کے حصول اور ذرائع آمدورفت کے راستے بنانے کے لئے بے دریغ طریقے سے کاٹنا اور بارود سے اُڑانا شروع کیا جو صدیوں سے تاحال جاری ہے۔ جنگلات بے ہنگم طریقے سے کاٹ کر اپنی زندگی کی آسائشوں کو پورا کرنا شروع کیا جو سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ریگستانوں کو ہم نے اپنی تفریح گاہوں میں بدلنے کی غرض سے تھوڑا بہت برباد تو کیا لیکن اس کے اندر چھپے خزانوں(تیل و گیس) کے حصول کی غرض سے ایک میدانِ جنگ بنا رکھا ہے۔زمین کے ان تین حصوں کو جس طرح برباد کیا اس کی بدولت ان کی مخلوقات کوبھی نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ پہاڑوں پر برفباری کے باعث ازل سے قائم گلیشئیرز (برفانی تودں) کو صفحئہ ہستی سے مٹانے میں بھرپور کردار ادا کیا، جس کے باعث پگھلنے اور گرنے کے وقت اپنے ساتھ آلودگی کا وہ سارا کچرہ اور دیگر غیر ضروری سامان بھی ساتھ لیتے آئے جو ایک ندی کی مانند دریا اور بالآخر سمندر میں گر کر صدیوں سے اس کے پانی کو آلودہ کرکے تمام آبی حیات کی تباہی کا باعث ہے۔ زمین کے وہ علاقے جہاں انسان بستے ہیں وہاں تہذیب کے نام پر جو ارتقائی عمل جاری ہؤا اور ہنوز جاری ہے اس میں انڈسٹریالائزیشن، ذرائع آمدورفت کے لئے سڑکوں کے جال اور مختلف قسم کی ٹرانسپورٹس سے جو آلودگی پیدا ہورہی ہے اس نے صدیوں میں زمین کے ارد گرد کے ماحول اور بالائی فضا کو اس قدر مکدّر کر دیا ہے کہ اب تو ہم انسانوں کا سانس لینا بھی دو بھر ہوگیا ہے ، سورج کی شعاعوں کو عوزون گیس کی تہ سے زمین کو محفوط رکھنےوالا نظام تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور اس کے علاوہ بے شمار مواصلاتی نظام قائم کرنے کے باعث انجانے امراض جنم لے رہے ہیں جن کے بارے میں تحقیق جاری ہے۔درج بالا تمام ارتقائی و ترقیاتی منازل کے طے کرنے میں زمین کا جو حصہ سب سے زیادہ اور شدید طور پر متاثر ہوا وہ کاشتکاری کا رقبہ ہے جہاں ہم انسان اپنے زندہ رہنے کے لئے اجناس ، سبزیاں اور پھل کاشت کیا کرتے تھے۔ اب یہ رقبہ اس قدر تھوڑا رہ گیا ہے کہ پوری دنیا کو غذائی قلت کا بحران سر پر کھڑا نظر آرہا ہے جس کا فوری کوئی تدارک نہ کیا گیا تو پوری دنیا ایک مصنوعی قحط سالی کا شکار ہو سکتی ہے۔ غرض یہ کہ ہم انسانوں نے زمین کو اس میں بسنے والی مخلوقات کے لئے ناقابلِ برداشت حد تک غیر محفوظ کر دیا ہے ۔ زمین کی اپنی زندگی کم ہوتی محسوس ہوتی ہے اور ساتھ ہی ہم انسانوں کے لئے تو یہ زمیں بالکل بھی مناسب نہ رہی جس بنیاد پر خلاؤں میں دیگر ستاروں کی دریافت کا عمل چاند پر 1969 میں پہلا قدم رکھنے سے شروع ہؤا جو آج نہایت تیزی سے جاری ہے۔صاحبِ ثروت انسان اپنی محفوظ و پُر فضاء رہائش کے لئے سرتوڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جن میں دنیا کے امیر ترین ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں اور ایک دوسر سے تعاون بھی کر رہے ہیں، نیز اس کے ساتھ ہی یہ باحیثیت انسان ہماری اس زمیں اور انسانیت کو بچانے کی ترغیب دیتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ "لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تو" یعنی اب ہمیں اپنی پرانی دیہاتی زندگی کی جانب لوٹنا ہوگا۔جس کے اختیار کرنے سے وہ تمام زمینی ، آبی اور فضائی آلودگی کی وجوہات ختم ہو جائیں گی اور ہم اپنی زمیں کو بچانے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ یعنی انسانیت کو بھی بچا پائیں گے۔ |