ہر کوئی قومی کھلاڑی؟ مگر حقیقت کچھ اور ہے!?
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کھیلوں کے میدان میں آج ایک ایسی خاموش بدنظمی پنپ رہی ہے جس نے اصل ٹیلنٹ اور میرٹ کو دباکر رکھ دیا ہے۔ ہر دوسرا کھلاڑی اپنے تعارف میں "نیشنل پلیئر" یا "انٹرنیشنل پلیئر" لکھ کر فخر محسوس کرتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی وہ ایسا ہے؟ یا یہ محض ایک دعویٰ، لباس اور تصویر تک محدود نعرہ ہے؟ان نیشنل پلیئر میں اصلی اور نقلی کی پہچان بھی مشکل ہوگئی ہیں."نیشنل پلیئر" وہ ہوتا ہے جو پاکستان میں منعقد ہونے والے سرکاری سطح کے قومی مقابلوں جیسے نیشنل گیمز میں اپنے صوبے، ادارے یا فورس کی نمائندگی کرے۔ پاکستان میں ہر چار سال بعد منعقد ہونے والے نیشنل گیمز وہی ایونٹ ہوتے ہیں جن کے بعد کھلاڑی پاکستان کلر (گرین کٹ) پہنتے ہیں۔
مگر آج کل ہر کھیل کی اپنی الگ نیشنل چیمپئن شپ منعقد ہوتی ہے۔ چاہے وہ محدود شرکت والی نجی ایونٹ ہو، اس میں شریک کھلاڑی خود کو "نیشنل چیمپئن" اور "نیشنل پلیئر" ظاہر کرتے ہیں۔ یہ محض الفاظ کے ساتھ کھیلنے جیسا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر مقامی سطح پر بھی کسی قابل ذکر کارکردگی کے حامل نہیں ہوتے۔سوشل میڈیا کے اس دور میں خود ساختہ "انٹرنیشنل پلیئرز" کی بڑی تعداد نکل آئی ہیں.زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ کئی لوگ اپنی جیب سے تھائی لینڈ، نیپال، ملائیشیا جیسے ملکوں میں ہونے والے نجی مقابلوں میں شرکت کرتے ہیں، اور واپسی پر قومی پرچم کے ساتھ تصویر کھنچوا کر "انٹرنیشنل پلیئر" بن جاتے ہیں۔ ان کا تعلق نہ کسی فیڈریشن سے ہوتا ہے، نہ کوئی باقاعدہ سلیکشن، نہ کوئی میرٹ۔لیکن پھر بھی یہ لوگ اپنے آپ کو بین الاقوامی سطح کا کھلاڑی ظاہر کرتے ہیں.
یہی نہیں، ان میں سے بعض کھلاڑی بعد میں صوبائی اسپورٹس ڈائریکٹریٹ یا حکومت سے فنڈز اور وظیفوں کا مطالبہ بھی کرتے ہیں، حالانکہ ان کی بین الاقوامی نمائندگی نہ رسمی ہوتی ہے اور نہ تسلیم شدہ۔ یہ عمل حقیقی کھلاڑیوں کے ساتھ ظلم اور اسپورٹس سسٹم کے ساتھ دھوکہ ہے۔اور یہی دھوکہ پاکستان کے گرین کٹ کے استحصال کا باعث بن رہا ہے ایک وقت تھا جب پاکستان کلر (گرین کٹس اور گرین کوٹ) صرف قومی عزت کی علامت تھے، مگر اب یہ کٹس کھلے عام مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں۔ بعض ادارے کاروبار کے طور پر یہ کٹس بیچتے ہیں۔ پشاور میں منعقدہ سکواش کے ایک ایونٹ میں سپانسر نے پاکستان کلر کے کٹس کی فروخت عام لوگوں کے فروخت کیلئے رکھی تھی جس پر نشاندہی پر ڈی جی اسپورٹس نے نوٹس لے کر پابندی عائد کی۔لیکن اب یہ اس طرح کے کٹس بازاروں میں کھلے عام ملتے ہیں.
بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنے والے ایک سینئر کھلاڑی کے مطابق ہمارے وقتوں میں ہر کوئی گرین کٹ نہیں پہن سکتا ‘ جو پہن لیتا وہ پھرگرین کٹس اس کی پہچان بن جاتی لیکن اب تو ہر کوئی ایرا غیر ا نتھو خیرا انٹرنیشنل کھلاڑی بن چکا ہے ‘ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ بعض کھیلوں کے صحافی بھی گرین کٹس پہن کر اپنے آپ کو یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی انٹرنیشنل ہیں ‘ حالانکہ یہ صرف کھلاڑیوںکیلئے مخصوص ہونا چاہئیے ہ اس کھلاڑی کے بقول کھلاڑی نہ میدان میں کھیلتاہے اب صحافی کا گرین کٹس کیساتھ کیاکام ‘ لیکن کھلاڑیوں کی دیکھا دیکھی ان میں بھی شوبازی کا مظاہرہ دیکھنے میں آتاہے ‘ سینئر کھلاڑی نے اس سخت جملوںپر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ سب کھیلوں کے صحافی ایسے نہیں لیکن زیادہ تر ایسے ہی ہیں حالانکہ وہ صرف لکھنا جانتے ہیں لیکن وہ بھی کھیلوں سے وابستہ کھلایوں کے چیزوں کو اپنے شو کیلئے استعمال کرتے ہیں.
اس صورتحال نے اتنا بگاڑ پیدا کیا ہے کہ اب کئی اصل انٹرنیشنل کھلاڑی بھی پاکستان کلر پہننے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک میرٹ کا جنازہ نکل چکا ہے اور انہیں خود بھی اس "ڈرامائی ہجوم" میں شامل دکھایا جاتا ہے۔جب ایسے حالات میں جب دھوکہ اصل بن جائے، تو اصل خود کو چھپاتا ہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ اسپورٹس اتھارٹیز، فیڈریشنز، اور میڈیا ایک مو¿ثر سسٹم لائیں، جہاں صرف وہی کھلاڑی نیشنل یا انٹرنیشنل کہلائے جن کی شرکت، سلیکشن، اور شناخت باقاعدہ ریکارڈ اور شواہد پر مبنی ہو۔ورنہ یہ صورتحال کھیلوں کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دے گی، اور ٹیلنٹ دفن ہوتا رہے گا۔
#FakeAthletes #SportsFraud #MeritMatters #RealChampions #StopMisuseOfNationalColors #ProtectTrueTalent #PakistanSports #GreenKitNotForSale #AthleteIntegrity #NationalGamesOnly #NoMoreSelfProclaimedChampions
|