یہ سہ لسانی نظم—جو اردو میں تخلیق کی گئی اور عربی و انگریزی میں ترجمہ کی گئی ہے—فلسطینی عوام پر ڈھائے گئے مظالم کے خلاف ایک باوقار، علامتی اور جذباتی احتجاج ہے۔ شاعر نے اس نظم میں پر اثر علامتوں، جذباتی لب و لہجے، اور سوالیہ انداز بیان کے ذریعے اس قوم کے کرب کو بیان کیا ہے جس سے بنیادی انسانی حقوق—روٹی، دوا، تعلیم، عبادت اور آزادی—چھین لیے گئے ہیں۔ نظم کا ہر بند مظلوموں کی سسکیوں، بچوں کی معصوم نظریں، ماں کے زخم، اور بزرگوں کے صبر کی تصویر بن کر ابھرتا ہے۔ شاعر عالمی برادری کی خاموشی پر سوال اٹھاتا ہے، اور ظلم کے خلاف فلسطینی عوام کی بے مثال مزاحمت کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ یہ نظم صرف درد کی داستان نہیں بلکہ ضمیر کی پکار ہے۔ نظم کا اختتام ایک امید افزا نوید پر ہوتا ہے، جہاں شاعر شہیدوں کو انقلاب کا رہنما قرار دیتا ہے، اور خون سے اگنے والے سورج کی پیش گوئی کرتا ہے۔
یہ تخلیق، ظلم کے خلاف ادبی مزاحمت، اجتماعی شعور کی بیداری، اور انسانی وقار کے تحفظ کی علامت بن کر سامنے آتی ہے |
|
|
فلسطینیوں کی صدائے احتجاج |
|
فلسطینیوں کی صدائے احتجاج ڈاکٹر محمد افضل رضوی
فلسطینیوں کی صدائے احتجاج!!!!!!!!!!!!!؟؟ کیوں کھانے کے بدلے گولی ہے مقدر ٹھہرا؟ جینے کا جو حق تھا، وہ بھی چھینا گیا ہم سے ہر بچہ، ہر ماں، ہر بوڑھا اب منظر ٹھہرا روٹی، دوا، کتاب کا خواب لیے آئے تھے ہر ایک خواب ہی خون میں بھیگا دفتر ٹھہرا سجدے میں تھا تو بم سے اڑایا گیا بدن کیوں بس ہمارا ہی بدن پتھر ٹھہرا؟ لب کھولے تو چھن گئی سانسوں کی آزادی خاموش رہیں تو جینا بھی بے اثر ٹھہرا ننھے سے ہاتھ میں تھانہ پتھر، نہ بارود پھر بھی ظالم ترے ہاتھ میں خنجر ٹھہرا جلتے گھروں سے اُٹھتا دھواں ہے سچائی کا دنیا کے ہر ایوان میں وہ منظر ٹھہرا بستی جو مٹا دی گئی نقشے سے بھی آخر تاریخ میں وہی بربادی کا محور ٹھہرا اقوامِ جہاں! کیا تم سب اندھے، بہرے ہو؟ کیوں مجرموں کا ہر دعوی معتبر ٹھہرا؟ اک دن لہو کا سورج اگے گا افق پر کہ ہر شہید، انقلاب کا رہبر ٹھہرا
� الترجمة العربية: صوتُ الاحتجاجِ الفلسطيني، لِمَ صارَ الرصاصُ نصيبًا بدلَ الطعام؟
حُرمةُ الحياةِ سُلبت منا بالقوة، وصارَ كلُ طفلٍ وأمٍ وشيخٍ مشهدًا دامعًا جئنا نحلمُ بخبزٍ، ودواءٍ، وكتاب، فإذا بكلِّ حلمٍ سُجِّلَ في دفاترِ الدم كانَ الجسدُ ساجدًا، فنسفتهُ القنابل، هل قُدِّرَ أن يكونَ جسدُنا وحدَهُ حجرًا؟ إن نطقنا، سُلِبت منا أنفاسُ الحريّة، وإن صمتنا، فالحياةُ صارت بلا معنى كانت الأيادي الصغيرة خاليةً من الحجارةِ والبارود، ومع ذلك، سُجّلَت بأنها خناجرُ في يدِ العدو الدخانُ المتصاعدُ من البيوتِ المحترقة، هو الحقيقةُ التي تشهدها قاعاتُ الأمم القريةُ التي مُحيت من الخريطةِ بالأمس، صارت محورًا للخرابِ في كتبِ التاريخ يا أممَ العالم! أما زلتم عميًا وصُمًّا؟ لماذا يُعتَبرُ كلُ وعدٍ للظالمينَ صادقًا؟ سيُشرقُ يومًا شمسُ الدمِ في الأفق، وكلُ شهيدٍ سيكونُ قائدًا للثورة
�� English Translation: The Palestinian cry of protest— Why is a bullet our destiny instead of bread? The right to live was forcefully stripped from us, Every child, every mother, every elder—a bleeding scene. We came dreaming of bread, medicine, and books, But every dream was soaked in the ink of blood. He was in prostration when the bomb tore his body apart—
Why is it only our bodies that are marked as stone? If we speak, our breath of freedom is snatched away, And if we stay silent, even life loses its meaning. Tiny hands held neither stone nor weapon— Yet in the enemy’s hand, they were called daggers. The smoke rising from burning homes Is the truth seen in the halls of every nation. The village erased from the map at last— Is now the epicenter of destruction in history. O nations of the world! Are you blind and deaf? Why is every claim of the oppressor deemed credible? One day, the sun of blood shall rise on the horizon— And every martyr shall lead the revolution.
|